ماہ رمضان یا گنگا کا اشنان

الحمدللہ رمضان کی آمد آمد ہے، ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم مسلمان دل کھول کر نفلی صدقات کریں گے۔ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا کیا ہی بڑی سعادت ہے اور ان شاء اللہ ہماری عبادات میں بھی بھرپور اضافہ ہوگا۔
کسی مذہب میں پاپوں کے پراسچت یعنی گناہوں کی معافی کے لیے گنگا میں اشنان کیا جاتا ہے، کہیں تنہائی میں پوپ کے سامنے گناہوں کا اقرار کر کے اپنے دل کی تسلی کی جاتی ہے، کہیں معمولی قربانی دے کے اپنا کھاتا صاف کر لیا جاتا ہے۔ذرا سوچیے! کہیں ہم بھی اسی طرح رمضان کو صرف گناہوں کی معافی کا مہینا تو نہیں سمجھ بیٹھے، کہ پورا سال اپنی مرضی سے گزارا اور رمضان میں عبادات اور صدقات کرکے پورے سال کے گناہوں کی معافی کروا لی۔

بے شک ایسا بھی ہے! جس رب ذوالجلال سے ہمارا واسطہ ہے وہ تو اس سے بھی زیادہ کریم اور عطاؤں کے دروازے وا کرنے والا ہے۔ لیکن نہیں! صرف ایسا نہیں ہے۔ اس کے یہاں رمضان صرف ایک مہینے کے اشنان کام نام نہیں۔ کیا اسلام صرف ایک مہینے کا دین ہے یا صبح اٹھنے سے لے کر رات کو سونے تک اور شعوری زندگی میں داخل ہونے سے لےکر اختتامِ زندگی تک کی بندگی کا نام ہے؟رمضان تو در اصل اس کی مشق کا مہینا ہے، بندگی اور غلامی کے احساس کو تروتازہ کرنے کا مہینا ہے کہ جب ہم اس رمضان میں اللہ کے حکم پر کھانے پینے کی وہ اشیا جنھیں اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے، چھوڑ رہے ہیں اور نفلی عبادات کو بڑھا رہے ہیں تو عام زندگی میں فرائض کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں، یا کیسے کسی حرام کام یا کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ شاید یہ الفاظ ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کر سکیں۔

آئیے اس رمضان پوری زندگی کو دین پر لانے کا بھرپور عزم اور عمل کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسے بہت مشکل کام سمجھتے ہیں حالانکہ یہ انتہائی آسان کام ہے۔ بس ذرا سی توجہ اور کوشش درکار ہے۔
سب سے پہلا کام تو اپنی زندگی کا جائزہ لینا ہے مثلاً:

۔ کیا میری عبادات مکمل ہیں ،کیا مجھے اپنی زندگی کے فرائض، واجبات، محرمات ، مکروہات وغیرہ کا علم ہے ؟

۔ کیا مجھے اتنا قرآن مجید صحیح تلفظ سے یاد ہے جتنا نماز میں پڑھنا فرض ہے؟

۔ کیا مجھے اپنے کاروبار، ملازمت یا کسی بھی ذریعۂ آمدنی کے تمام حلال وحرام اور فرائض واجبات کا علم ہے؟

۔ کیا مجھے اپنے والدین ، بیوی بچوں،بہن بھائیوں، رشتےدار اور پڑوسیوں کے وہ حقوق معلوم ہیں جنھیں ادا نہ کرنے سے میں گناہ گار ہو رہا ہوں؟

۔ کیا مجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قرار دیے جانے والے حرام کاموں اور کبیرہ گناہوں کی فہرست معلوم ہے؟

۔ کیا مجھے بڑی بڑی روحانی بیماریوں کا علم ہے انسان کو نہ صرف جہنمی بناتی ہیں بلکہ دنیا میں بھی پریشان رکھتی ہیں؟

مجھ سمیت ہم میں سے شاید ہی کوئی عام آدمی اس بات کا دعویٰ کرسکے کہ اسے ان سب باتوں کا علم ہے۔ الا ماشاءاللہ۔

کیوں نہ اس رمضان ہم اپنی زندگی کا بنیادی جائزہ لیں، اپنے گزشتہ اعمال و افعال سے سچی پکی توبہ کریں،ہمارے ذمے جن فرائض و واجبات کی ادائیگی لازم ہے، ان کے ادا کرنے کا مصمم ارادہ کریں اور حرام کام اور کبیرہ گناہوں سے بچنے کو یقینی بنائیں۔

آپ جانتے ہیں کہ کرنے کے کاموں میں یہ سب سے اہم کام ہے، لیکن اتنا وقت کس کے پاس کہ کتابیں پڑھے، اتنی ساری باتیں پوچھنے دارالافتاء جائے، یا مدرسے میں داخلہ لے لیکن جناب جن احکامات کے پورا کرنے کے ہم ذمہ دار ہیں ان کا علم حاصل کرنا تو فرض ہے نا!

اس کا بہترین حل یہ ہوسکتاہے کہ اس رمضان کسی عالم دین سے خدمات لے لی جائیں اور ان سے روزانہ کچھ وقت اپنے گھر، آفس یا محلے میں ان موضوعات پر بات کروائی جائے اور قرآن ٹھیک کرنے کے لیے قاری حضرات سے وقت لیا جائے۔

یقین کیجیے! یہ ہماری زندگی کی سب سے منافع بخش سرمایہ کاری ہوگی۔
اس کام کے لیے زیادہ تجربہ رکھنے والے اہل علم اگر میسر نہ بھی ہوں تو دین کا علم حاصل کرنے والے پرانے طلبہ کا بھی انتخاب کیا جاسکتا ہے۔

آج ہی اپنے گھر سے قریب مسجد یا مدرسے یا جان پہچان والے علماء و طلبا سے رابطہ کرکے آپ یہ ترتیب بناسکتے ہیں اور جیسے ہم کسی ٹیوٹر یا کنسلٹنٹ کا معاوضہ طے کرتے ہیں ویسے ہی اس عظیم کام کے لیے ہم ان سے کچھ معاوضہ طے کرلیں اور اس کام کو کم ازکم اتنی اہمیت تو دے ہی دیں جتنی بچے کی ٹیوشن یا کسی کاروباری یا دفتری کام کو دی جاتی ہے۔

یقین جانیے دنیاکے ہر خیر کے کام یا نفلی صدقات سے بڑا کام اپنے فرائض و واجبات کا علم حاصل کرنا ہے۔
اپنے، اپنے والدین اور اس تحریر کے معاون بھائی سید جاوید اقبال کے لئے دعاؤں کا طلبگار۔

عمیر ملک آمان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *